Sunday, 26 March 2017

جس کی آنکھیں غزل ہر ادا شعر ہے

جس کی آنکھیں غزل ہر ادا شعر ہے
وہ مِری شاعری ہے مِرا شعر ہے
وہ حسیں زلف شب کا فسانہ لیے
وہ بدن نغمگی وہ قبا شعر ہے
وہ تکلم لہکتی ہوئی چاندنی
وہ تبسم مہکتا ہوا شعر ہے
پھول بھی ہیں بہاریں بھی ہیں گیت بھی
ہم نشیں اس گلی کی فضا شعر ہے
جس سے روشن تھا دل وہ کرن چھن گئی
اپنے جینے کا آسرا شعر ہے
اپنے انداز میں بات اپنی کہو
میر کا شعر تو میر کا شعر ہے
میں جہانِ ادب میں اکیلا نہیں
یر قدم پر مرا ہم نوا شعر ہے
عرش پر خود کو محسوس ہم نے کیا
جب کسی نے کہا واہ کیا شعر ہے
اک قیامت ہے جالبؔ یہ تنقیدِ نو
جو سمجھ میں نہ آئے بڑا شعر ہے

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment