Saturday, 25 March 2017

وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا

وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
عیسٰی کو ہو نوید کہ بیمار مرگیا
آزاد کچھ ہوئے ہیں اسیران زندگی
یعنی جمال یار کا صدقہ اتر گیا
ہاں سچ تو ہے شکایتِ زخمِ جگر غلط
دل سے گزر کے تیر تمہارا کدھر گیا
دل کا علاج کیجئے یا اب نہ کیجئے
اپنا جو کام تھا وہ غمِ یار کر گیا
کیا کہئے اپنی گرم روہیائے شوق کو
کچھ دور میرے ساتھ مِرا راہبر گیا
فانیؔ کی ذات سے غم ہستی کی تھی نمود
شیرازہ آج دفترِ غم کا بکھر گیا

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment