وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
عیسٰی کو ہو نوید کہ بیمار مرگیا
آزاد کچھ ہوئے ہیں اسیران زندگی
یعنی جمال یار کا صدقہ اتر گیا
ہاں سچ تو ہے شکایتِ زخمِ جگر غلط
دل کا علاج کیجئے یا اب نہ کیجئے
اپنا جو کام تھا وہ غمِ یار کر گیا
کیا کہئے اپنی گرم روہیائے شوق کو
کچھ دور میرے ساتھ مِرا راہبر گیا
فانیؔ کی ذات سے غم ہستی کی تھی نمود
شیرازہ آج دفترِ غم کا بکھر گیا
فانی بدایونی
No comments:
Post a Comment