نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصہ کہانی ہے
فقط اک ہم ہیں بستر پر پڑے اور ناتوانی ہے
بھلا میں ہاتھ دھو بیٹھوں نہ اپنی جان سے کیوں کر
خرام اس کے میں اک آبِ رواں کی سی روانی ہے
تُو یوں بے پردہ ہو جایا نہ کر ہر ایک کے آگے
نہ تنہا گل گریباں پھاڑتے ہیں دیکھ اس سج کو
چمن میں آبِ جو بھی چال پر اس کی دِوانی ہے
تِری باتوں نے تو اے مصحفیؔ جی کو جلا ڈالا
خدا کے واسطے چپ رہ، یہ کیا آتش زبانی ہے
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment