Saturday, 18 March 2017

نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصہ کہانی ہے

نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصہ کہانی ہے 
فقط اک ہم ہیں بستر پر پڑے اور ناتوانی ہے
بھلا میں ہاتھ دھو بیٹھوں نہ اپنی جان سے کیوں کر 
خرام اس کے میں اک آبِ رواں کی سی روانی ہے
تُو یوں بے پردہ ہو جایا نہ کر ہر ایک کے آگے 
نیا عالم ہے تیرا اور نئی کافر جوانی ہے
نہ تنہا گل گریباں پھاڑتے ہیں دیکھ اس سج کو 
چمن میں آبِ جو بھی چال پر اس کی دِوانی ہے
تِری باتوں نے تو اے مصحفیؔ جی کو جلا ڈالا 
خدا کے واسطے چپ رہ، یہ کیا آتش زبانی ہے

غلام ہمدانی مصحفی

No comments:

Post a Comment