قصۂ پارینہ
مِرے بزرگو، مِرے ساتھیو، مرے بیٹو
تمہارے واسطے انعام لے کے آیا ہوں
میں انقلاب کا پیغام لے کے آیا ہوں
یہ رشوتیں ، یہ سمگلنگ یہ چور بازاری
سیاہ داغ ہیں پیشانئ گلستاں پر
ہزاروں فرد ہیں اس گلستاں میں خانہ بدوش
جو موسموں کے تغیّر کا ظلم سہتے ہیں
امیر لوگ مگر کوٹھیوں میں رہتے ہیں
معالجوں کے رویے سے تنگ ہیں بیمار
کہ زہر ہوتا ہے تقسیم جینے والوں میں
حیات خون اگلتی ہے ہسپتالوں میں
وطن پرست عناصر ہیں جیل میں محبوس
عجب یہ رستہ نکالا ہے ظلم ڈھانے کا
گمان ہوتا ہے گلشن پہ قید خانے کا
امیرِ شہر کے کتوں کو گوشت ملتا ہے
مگر عوام کی فاقہ شماریاں ہیں وہی
وہی سماج ہے جاگیرداریاں ہیں وہی
یہی کسان میسر نہیں لباس جنہیں
تمام عمر زمیں سے کپاس اگاتے ہیں
تمام عمر معیشت کا بوجھ اٹھاتے ہیں
کسی غریب کی عزت نہیں یہاں محفوظ
قدم قدم وہی اندھا سماج قائم ہے
تمام دیس میں ظلمت کا راج قائم ہے
یہ بھوک ننگ جو تقدیر بنتا جاتا ہے
یہ شہر شہر جو اجناس کی گرانی ہے
اسی سماج کی ساری یہ مہربانی ہے
یہ عصمتوں کی تجارت، یہ رات کا بیوپار
تباہیوں کا ذریعہ نہیں تو اور کیا ہے
یہ اس سماج کا ثمرہ نہیں تو اور کیا ہے
کہیں سفر میں کہیں لاریوں کے اڈوں پر
یہ میری قوم کے بچے جو جیب کاٹتے ہیں
یہ سب قصور ہمارے اسی سماج کے ہیں
یہی سماج اگر ٹھیک ہے تو بات کرو
دلوں سے جذبۂ غیرت مٹا دیا کس نے
یہ تم کو خوابِ گراں میں سُلا دیا کس نے
فضائے امن و محبت کی آرزو ہے اگر
تو آفتاب افق سے اچھالنا ہو گا
سحر کے پاؤں سے کانٹا نکالنا ہو گا
میں اپنے عہد کا شاعر بھی ہوں مجاہد بھی
میں جابروں سے لڑوں گا لہو اچھالوں گا
میں وقت آنے پہ بندوق بھی اٹھا لوں گا
بیدل حیدری
No comments:
Post a Comment