Thursday 2 March 2017

یوں تیرے حسن کی تصویر غزل میں آئے

یوں تیرے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
جبر سے ایک ہوا ذائقۂ ہجر و وصال
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے
ہمسفر تھی جہاں فرہاد کے تیشے کی صدا
وہ مقامات بھی کچھ سیرِ جبل میں آئے
یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم
حلقۂ فکر سے میدانِ عمل میں آئے
ہر قدم دست و گریباں ہے یہاں خیر و شر
ہم بھی کس معرکۂ جنگ و جدل میں آئے
زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
اٹھ کے اک بار الٹ دوں غمِ دنیا کی بساط
اتنی طاقت تو مِرے بازوئے شل میں آئے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment