اب بھلے دیکھتا رہے، جس کو
نظر آئے نہ ہم کھڑے جس کو
ہائے وہ بھیگا ریشمی پیکر
تولیہ کھردرا لگے جس کو
دل کو اتنا سجا کے پھینکا ہے
کم نگاہو! یہی مناسب ہے
دور جتنا دیا پڑے جس کو
ہم اسے پوچھ تھوڑی سکتے ہیں
اس کی مرضی جہاں رکھے جس کو
کرچی کرچی سمیٹتا ہوں اسے
توڑ دیتے ہیں آئینے جس کو
شاہ زادی ہو یا کنیز فراغؔ
رنگ اس شوخ کا جچے جس کو
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment