Thursday, 23 March 2017

کیوں کہا یہ کسی سے کیا مطلب

کیوں کہا یہ کسی سے کیا مطلب
اسی کہنے سے کھل گیا مطلب
بات پوری نہیں کہی میں نے
کہ وہ طرار لے اُڑا مطلب
میں کہے جاؤں تم سنے جاؤ
ایک کے بعد دوسرا مطلب
ہے مِرا درد آپ کی راحت
ہے مِری یاس آپ کا مطلب
مٹ گئے ایک ہی تغافل میں
شوق ارماں مدعا مطلب
اُنکی جانب سے ہو پیام وصال
ہے نئی چاہ کا نیا مطلب
غیر کا خط بھی چاک کر ڈالا
مل گیا تھا جو کچھ میرا مطلب
باندھ کر خط پر کبوتر پر
لکھ دیا ہم نے جابجا مطلب
مر گیا مثردہ وصال سے میں
یوں بھی نکلا رقیب کا مطلب
کبھی کہتا ہوں دل سے خوب کیا
کبھی کہتا ہوں کیوں کہا مطلب
بے غرض تھے تو لطف صحبت تھا
دشمن وضع ہو گیا مطلب
بے خودی میں رہا نہ یاد القاب
خط میں پہلے ہی لکھ دیا مطلب
دل میں گھٹ گھٹ کے رہ گئی حسرت
لب پہ آ آ کے رہ گیا مطلب
حضرت داغؔ توبہ کرتے ہیں
کاش پورا کرے خدا مطلب

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment