Saturday 25 March 2017

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے
تیری آواز جدھر لے جائے
اب یہی سوچ رہی ہیں آنکھیں
کوئی تا حدِ نظر لے جائے
منزلیں بجھ گئیں چہروں کی طرح
اب جدھر راہگزر لے جائے
تیری آشفتہ مزاجی، اے دل
کیا خبر کون نگر لے جائے
سایۂ ابر سے پوچھو ثروت
اپنے ہمراہ اگر لے جائے

ثروت حسین

No comments:

Post a Comment