دشت لے جائے کہ گھر لے جائے
تیری آواز جدھر لے جائے
اب یہی سوچ رہی ہیں آنکھیں
کوئی تا حدِ نظر لے جائے
منزلیں بجھ گئیں چہروں کی طرح
تیری آشفتہ مزاجی، اے دل
کیا خبر کون نگر لے جائے
سایۂ ابر سے پوچھو ثروت
اپنے ہمراہ اگر لے جائے
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment