عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا
تازہ کیا پیمان صنم سے، دین گیا، ایمان گیا
میں جو گدایانہ چِلّایا در پر اس کے نصفِ شب
گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا
آگے عالم عین تھا اس کا اب عین عالم ہے وہ
مطلب کا سررشتہ گم ہے، کوشش کی کوتاہی نہیں
جو طالب اس راہ سے آیا خاک بھی یاں کی چھان گیا
خاک سے آدم کر دکھلایا یہ منت کیا تھوڑی ہے
اب سر خاک بھی ہو جاوے تو سر سے کیا احسان گیا
ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا میں نے کہے
رفتہ رفتہ ہندوستاں سے شعر مِرا ایران گیا
کیونکے جہت ہو دل کو اس سے میرؔ مقامِ حیرت ہے
چاروں اور نہیں ہے کوئی یاں واں یوں ہی دھیان گیا
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment