مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے
اس شخص کو جینے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اس پیڑ کے سائے میں بھی کیوں اتنی گھٹن ہے
ہیں سبز یہ پتے تو ہوا کیوں دیتے
جس خون میں آ جائے سفیدی کی ملاوٹ
آئینے ستاتے ہیں تو چہرے کو نہ دیکھو
آنکھوں میں چمک ہے تو بجھا کیوں نہیں دیتے
اس عرصۂ خاموش میں ہم تنہا کھڑے ہیں
ہے درد ہمارا تو صدا کیوں نہیں دیتے
کچھ لوگ جو پیچھے ہیں وہ پنجوں پہ کھڑے ہیں
قد اپنا یہ تھوڑا سا گھٹا کیوں نہیں دیتے
ہے آگ کا یہ کھیل تو پھر سوچنا کیسا
خود اپنا بدن آپ جلا کیوں نہیں دیتے
وہ بات جو پڑھتے رہے آنکھوں میں ہماری
وہ سارے زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے
راشد فضلی
No comments:
Post a Comment