Thursday 23 March 2017

مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے

مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے
اس شخص کو جینے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اس پیڑ کے سائے میں بھی کیوں اتنی گھٹن ہے 
ہیں سبز یہ پتے تو ہوا کیوں دیتے
جس خون میں آ جائے سفیدی کی ملاوٹ 
اس خون کو آنکھوں سے بہا کیوں نہیں دیتے
آئینے ستاتے ہیں تو چہرے کو نہ دیکھو 
آنکھوں میں چمک ہے تو بجھا کیوں نہیں دیتے
اس عرصۂ خاموش میں ہم تنہا کھڑے ہیں 
ہے درد ہمارا تو صدا کیوں نہیں دیتے
کچھ لوگ جو پیچھے ہیں وہ پنجوں پہ کھڑے ہیں 
قد اپنا یہ تھوڑا سا گھٹا کیوں نہیں دیتے
ہے آگ کا یہ کھیل تو پھر سوچنا کیسا 
خود اپنا بدن آپ جلا کیوں نہیں دیتے
وہ بات جو پڑھتے رہے آنکھوں میں ہماری 
وہ سارے زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے 

راشد فضلی

No comments:

Post a Comment