Thursday 9 March 2017

اس نے کل گاؤں سے جب رخت سفر باندھا تھا

اس نے کل گاؤں سے جب رختِ سفر باندھا تھا
بچہ آغوش میں تھا، پُشت پہ گھر باندھا تھا
انگلیوں پر بھی نچایا ہےسمندر ہم نے
ہم نے اک دور میں چپو سے بھنور باندھا تھا
اب جو دم گھٹتا ہے زنداں میں تو روتے کیوں ہو
تمہی لوگوں نے تو دیوار کو در باندھا تھا
یہ جو لوگوں کو اب آواز سے پہچانتا ہے
اس کی ماں نے اسے تعویذِ نظر باندھا تھا
اس کی یادوں نے بنائی تھی مسافت دشوار
اس نے آندھی کی طرح میرا سفر باندھا تھا
جنگ کو جیت کے جس وقت میں لوٹا بیدلؔ
اس نے سہرا ہی کسی اور کے سر باندھا تھا 

بیدل حیدری

No comments:

Post a Comment