دینے والے میرے دیس کی دھرتی کو خوشحالی دے
باغوں کو پھل پھول عطا کر، کھیتوں کو ہریالی دے
مولا! مجھ کو ڈال دے اپنے درویشوں کے رستے پر
اس کا بھی میں برا نہ مانگوں جو نِت مجھ کو گالی دے
جو اپنی اولاد سے بڑھ کر سمجھے پودوں پیڑوں کو
صدیوں جھلسایا ہے جس کو پیلی گرم دوپہروں نے
اس دہقان کے چہرے کو اب شنگرف جیسی لالی دے
ساری دنیا تیرے ذمے دنیا کی ہر چیز تری
مجھ کو تو بس ایک مِرے کردار کی تو رکھوالی دے
آخر بڑا نہ بن بیٹھے وہ چھوٹے چھوٹے لوگوں میں
جس کو رتبہ دیا ہے تُو نے ظرف بھی اس کو عالی دے
یوں تو لکھتا ہی رہتا ہے نظمیں غزلیں گیت قتیلؔ
اسے کوئی تخلیق ہمیشہ زندہ رہنے والی دے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment