گاہ بازو پہ یہ سر، گہ تہِ خنجر دیکھا
راحت و رنج تِرے ہاتھوں سے اکثر دیکھا
جو گیا نامہ کو لے کر، وہ ہوا روزئ سِیخ
واں سے پھرتا نہ کوئی ہم نے کبوتر دیکھا
ایدھر اُودھر سے جو پھرتے ہوئے ہم جا نکلے
قابلِ سیر نہیں بس کہ جہانِ گزراں
جو گیا یاں سے، کبھی اس نے نہ پِھر کر دیکھا
تفرقہ نام سے بھاگے تھا جنہوں کے، ان کا
کہِیں دھڑ، اور کہِیں سر، اور کہِیں افسر دیکھا
میت اس در سے گئی میری، تو اس شوخ نے بھی
کبھی پٹ کھول دیا اور کبھی چھپ کر دیکھا
جب تلک خوابِ عدم میں تھے، نہ تھا مرگ کا ڈر
کھل گئی آنکھ ، تو قاتل ہی کو سر پر دیکھا
مصحفؔی کب وہ حیا ناک ہوا تجھ سے دو چار
جس نے آئینے کے آ کر نہ برابر دیکھا
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment