وہاں بھی کال پڑا، پیار کی صداؤں کا
کل ایک شخص ملا مجھ سے میرے گاؤں کا
بہت ہوا تو یہی نا، کہ ہار جاؤ گے
مقابلہ تو کرو شہر کے خداؤں کا
یہاں بھی اپنا گزارا نہ ہو سکے شاید
خموش بیٹھے رہے امن چاہنے والے
کسی نے حال بھی پوچھا نہ فاختاؤں کا
ابھی نہ چھیڑ رہائی کی بات رہنے دے
کہ تازہ ربط ہے زنجیر اور پاؤں کا
جہاں چراغ جلے تھے مِری تباہی پر
وہی تو گھر ہے مِرے درد آشناؤں کا
وہ اپنے لال کو ساحل پہ لا کے ڈوب گئی
عجیب چیز ہے غزنی یہ پیار ماؤں کا
محمود غزنی
No comments:
Post a Comment