Monday, 20 March 2017

ہر راہ مشتبہ تو مقامات مشتبہ

ہر راہ مشتبہ تو مقامات مشتبہ
اس شہرِ دلفگار کے دن رات مشتبہ
بازیگری ہے ایسی یہ چاروں طرف یہاں
لگنے لگی ہیں ساری کرامات مشتبہ
جو فائدے کی بات کرے تجھ سے اب تِرے
وہ شخص مشتبہ ہے مدارات مشتبہ
بدلے ہے بات بات میں مطلب ہزار ہا
ہر لفظ مشتبہ ہے،۔ خیالات مشتبہ
ناحق کی راہ چل پڑے اشراف سب یہاں
حاکم کے اپنے سارے مفادات مشتبہ
خائن کو چھوڑ دیجئے قاضی کو لیجئے
اپنوں پہ کر رہا ہے عنایات مشتبہ
اپنے قبیح عیب چھپانے کے واسطے
نادان کر رہے ہیں سماوات مشتبہ
کوئی بتا دے ہم کو بھی اچھا برا یہاں
ہم کو لگے ہے اپنی ہی بس ذات مشتبہ
ہم کو نہیں گلہ کہ نہ ہم سرخرو ہوئے
چن چن کئے گئے تھے سوالات مشتبہ
اور مڑ کے زندگی سے جو پوچھوں سوال میں 
ہر بار ہی ملے ہیں جوابات مشتبہ
اس دورِ بے لحاظ سے شکوہ نہ کیجئے
خود عشق کی ہیں ساری روایات مشتبہ
لکھا پڑھوں جو اپنا تو مجھ کو یقین ہو
خود سوچ میں مری ہیں تضادات مشتبہ
سمجھو نہ سب کے ساتھ کو ابرکؔ محبتیں
سب ڈھونڈتے ہیں تجھ میں کوئی بات مشتبہ

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment