عجب اک پردہ حائل ہے جو سرکایا نہیں جاتا
بہت سیدھی سی باتوں کو بھی سمجھایا نہیں جاتا
کبھی تھا فخر یہ خود پہ کہ میرِ کارواں ہم ہیں
لٹے پھر قافلے ایسے، کہ اِترایا نہیں جاتا
بہت وعدے ہوئے ہم سے، مداوا لازمی ہو گا
بہاریں جب نہیں اپنی تو پھر کیا آرزو رکھنا
یہ گلشن مانگے کی خوشبو سے مہکایا نہیں جاتا
نجانے کیوں سبھی رشتے ہوۓ جاتے ہیں اب لاغر
کہ دوری دو قدم کی ہو، مگر آیا نہیں جاتا
کسی سے مشورہ کیسا کسی سے پوچھنا کیا اب
ہنر ایسا محبت جو کہ بتلایا نہیں جاتا
مِرے صیاد سے کہہ دو نہیں اب لوٹنا ممکن
سمندر میں گرے قطرے کو پھر پایا نہیں جاتا
اب آگے ڈھونڈتے ہو کیا مجھے تم اس کہانی میں
میں وہ کردار جو انجام تک لایا نہیں جاتا
کہیں گے کیا مجھے اپنے، کہے گا یہ زمانہ کیا
ہو ابرکؔ سچ اگر لکھنا تو گھبرایا نہیں جاتا
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment