Monday, 20 March 2017

عجب اک پردہ حائل ہے جو سرکایا نہیں جاتا

عجب اک پردہ حائل ہے جو سرکایا نہیں جاتا
بہت سیدھی سی باتوں کو بھی سمجھایا نہیں جاتا
کبھی تھا فخر یہ خود پہ کہ میرِ کارواں ہم ہیں
لٹے پھر قافلے ایسے، کہ اِترایا نہیں جاتا
بہت وعدے ہوئے ہم سے، مداوا لازمی ہو گا
مگر ہے وقت ایسا قرض لوٹایا نہیں جاتا
بہاریں جب نہیں اپنی تو پھر کیا آرزو رکھنا
یہ گلشن مانگے کی خوشبو سے مہکایا نہیں جاتا
نجانے کیوں سبھی رشتے ہوۓ جاتے ہیں اب لاغر
کہ دوری دو قدم کی ہو، مگر آیا نہیں جاتا
کسی سے مشورہ کیسا کسی سے پوچھنا کیا اب
ہنر ایسا محبت جو کہ بتلایا نہیں جاتا
مِرے صیاد سے کہہ دو نہیں اب لوٹنا ممکن
سمندر میں گرے قطرے کو پھر پایا نہیں جاتا
اب آگے ڈھونڈتے ہو کیا مجھے تم اس کہانی میں
میں وہ کردار جو انجام تک لایا نہیں جاتا
کہیں گے کیا مجھے اپنے، کہے گا یہ زمانہ کیا
ہو ابرکؔ سچ اگر لکھنا تو گھبرایا نہیں جاتا

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment