بتائیں کیا کہ کہاں پر مکان ہوتے تھے
وہاں نہیں ہیں جہاں پر مکان ہوتے تھے
سنا گیا ہے یہاں شہر بس رہا تھا کوئی
کہا گیا ہے یہاں پر مکان ہوتے تھے
وہ جس جگہ سے ابھی اٹھ رہا ہے گرد و غبار
ہر ایک سمت نظر آ رہے ہیں ڈھیر پہ ڈھیر
ہر ایک سمت مکاں پر مکان ہوتے تھے
ٹھہر سکے نہ رضؔا موجِ تند کے آگے
وہ جن کے آبِ رواں پر مکان ہوتے تھے
اختر رضا سلیمی
No comments:
Post a Comment