رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
میں تیرہ شب آفتاب دیکھا
سرخی سے تِرے لبوں کی ہم نے
آتش کو میان آب دیکھا
قاصد کا سر آیا اس گلی سے
جانا یہ ہم نے وفات کے بعد
دیکھا جو جہاں میں خواب دیکھا
آنکھوں سے بہاریں گزریں کیا کیا
کس کس کا میں نہ شباب دیکھا
کی اس نے جفائیں بے حسابی
اک دن نہ کبھو حساب دیکھا
کیا ہو گی فلاح بعد مردن
جیتے تو سدا عذاب دیکھا
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment