جبر
میں نے اپنی گزاری شبوں پر
اپنی آنکھوں کو پھیلا کے دیکھا
کتنے خوابوں کے پوشیدہ لمس
ان اندھیرے سے لمحوں میں
جن میں میں اکثر جیا بھی نہیں
گدگداتے رہے
میں ہنسا جیسے ہنسنا بھی اک کام تھا
میں وہاں بھی نہیں تھا، جہاں میرے آنسو کی قیمت
محبت کی جھوٹی ترازو میں تولی گئی
مجھے وقت نے اپنے ہاتھوں میں جکڑا
مگر جس کو جکڑا میرا جسم تھا
میں وہاں بھی کہاں تھا
سزا بھی میری یہ مقرر ہوئی
کہ دیوار پر اک نوشتہ بنوں
میں نوشتہ بنا
آئینے میرے چاروں طرف، اپنی نظروں سے یلغار کرنے لگے
میں جو سہما ہوا لفظ تھا، بے سہارا ہوا
لوگ کہنے لگے، خواب دیوار پر ٹانکنے کا عمل
صرف ایسی ہی آنکھوں کے ہاتھوں میں ہے
جو کہ نابینا ہوں
درد دنیا میں پھیلا ہوا ہے مگر
اپنے الفاظ ناطق بھی گونگے ہوئے
کون کس کو پڑھے، کون کس کو سنے
ایک دیوار ہے جس پہ کچھ لفظ باقی بچے رہ گئے ہیں
جہاں میں نہیں ہوں
وہ میری سزا تو نہ جانے کبھی کی اٹھا لی گئی ہے
راشد فضلی
No comments:
Post a Comment