برے جو تخت پہ حاکم بٹھا دئیے گئے ہیں
یہ دکھ بھی ہم کو بطورِ سزا دئیے گئے ہیں
صلے تو دیکھئے الفت کے کیا دئیے گئے ہیں
لہو کے داغ بدن پر سجا دئیے گئے ہیں
میں دیکھ دیکھ کے حیران ہو رہا ہوں بہت
کہاں کا عدل کہ یک طرفہ فیصلے تھے سبھی
جو حاکموں کے کہے پر سنا دئیے گئے ہیں
تُو ذکر کرتا ہے اے دوست! دست و بازو کا
یہاں تو ذہن، اپاہج بنا دئیے گئے ہیں
وہ جن سے تھی کوئی امید کی کرن روشن
وہ جذبے لوریاں دے کر سُلا دئیے گئے ہیں
ہمارے قتل کا الزام ان کے سر تو نہیں
یہ جن کی جیب پہ تمغے سجا دئیے ہیں
تمام فیصلے تلوار کرنے آئی تھی
مصالحت کے مواقع گنوا دئیے گئے ہیں
ضرور آئے گا اب رزق اپنے بچوں تک
کہ ان کے ہاتھوں میں کاسے تھما دئیے گئے ہیں
ہنر وروں کو میں غزنی سلام کرتا ہوں
سمندروں میں بھی ساحل بنا دئیے گئے ہیں
ہے ایک جشن بپا قاتلوں کی بستی میں
کرائے قتل کے، غزنی، بڑھا دئیے گئے ہیں
محمود غزنی
No comments:
Post a Comment