پرسش کو مِری کون مِرے گھر نہیں آتا
تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا
تم لاکھ قسم کھاتے ہو ملنے کی عدو سے
ایمان سے کہہ دوں مجھے باور نہیں آتا
ڈرتا ہے کہیں آپ نہ پڑ جائے بلا میں
جو مجھ پر گزرتی ہے کبھی دیکھ لے ظالم
پھر دیکھوں کے رونا تجھے کیونکر نہیں آتا
کہتے ہیں یہ اچھی ہے تڑپ دل کی تمہارے
سینے سے تڑپ کر کبھی باہر نہیں آتا
دشمن کو کبھی ہوتی ہے دل پہ مِرے رقت
پر دل یہ تِرا ہے کہ کبھی بھر نہیں آتا
کب آنکھ اٹھاتا ہوں کہ آتے نہیں تیور
کب یہ بیٹھ کے اٹھتا ہوں کہ چکر نہیں آتا
غربت کدۂ دہر میں صدمے سے ہیں صدمے
اس پر بھی کبھی یاد ہمیں گہر نہیں آتا
ہم جس کی ہوس میں ہیں امیؔر آپ سے باہر
وہ پردہ نشین گھر سے باہر نہیں آتا
امیر مینائی
No comments:
Post a Comment