Monday 20 March 2017

جب کمر میں کٹار رکھا ہے

جب کمر میں کٹار رکھا ہے
اس نے کتنوں کو مار رکھا ہے
اِک فریبِ نگاہ پہ یاں ہم نے
سال ہا انتظار رکھا ہے
پھانس بھی گر چبھی ہے دل میں مِرے
اس نے برسوں فگار رکھا ہے
تم نے اپنا جہاں دھرا ہے قدم
ہم نے واں سر اتار رکھا ہے
اپنا عاشق نہیں تو اے کافر
آئینہ کیوں دو چار رکھا ہے
ہم نے دشتِ جنوں کے ہاتھوں سے
جیب کو تار تار رکھا ہے
ق
میری تربت پر آن کر گاہے
کب قدم تم نے یار رکھا ہے
بعد از مرگ بھی مجھے یعنی
کشتۂ انتظار رکھا ہے
مصحفیؔ ہم نے اپنے پہلو میں
دل کو دے دے فشار رکھا ہے

غلام ہمدانی مصحفی

No comments:

Post a Comment