جب کمر میں کٹار رکھا ہے
اس نے کتنوں کو مار رکھا ہے
اِک فریبِ نگاہ پہ یاں ہم نے
سال ہا انتظار رکھا ہے
پھانس بھی گر چبھی ہے دل میں مِرے
تم نے اپنا جہاں دھرا ہے قدم
ہم نے واں سر اتار رکھا ہے
اپنا عاشق نہیں تو اے کافر
آئینہ کیوں دو چار رکھا ہے
ہم نے دشتِ جنوں کے ہاتھوں سے
جیب کو تار تار رکھا ہے
ق
میری تربت پر آن کر گاہے
کب قدم تم نے یار رکھا ہے
بعد از مرگ بھی مجھے یعنی
کشتۂ انتظار رکھا ہے
مصحفیؔ ہم نے اپنے پہلو میں
دل کو دے دے فشار رکھا ہے
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment