کب کہاں کس سے کوئی وصل کی شب مانگتا ہے
سرد راتوں کے گزرنے کا سبب مانگتا ہے
اپنے خوابوں کے فسُوں سے وہ نکل آیا ہے
رنگ کچھ ہلکے وہ تصویر میں اب مانگتا ہے
کیا عجب خواہشیں اس ذہن نے پالی ہوئی ہیں
عقل درویش ہے خاموش رہا کرتی ہے
دل تو وحشی ہے جو بس شور و شغب مانگتا ہے
اب کسی اصل کی پہچان نہیں ہے ثاقبؔ
نام سب دیکھتے ہیں، کون نسب مانگتا ہے
سہیل ثاقب
No comments:
Post a Comment