Monday, 22 July 2019

کب کہاں کس سے کوئی وصل کی شب مانگتا ہے

کب کہاں کس سے کوئی وصل کی شب مانگتا ہے
سرد راتوں کے گزرنے کا سبب مانگتا ہے
اپنے خوابوں کے فسُوں سے وہ نکل آیا ہے
رنگ کچھ ہلکے وہ تصویر میں اب مانگتا ہے
کیا عجب خواہشیں اس ذہن نے پالی ہوئی ہیں
دن کو ڈھلنے نہیں دیتا ہے پہ شب مانگتا ہے
عقل درویش ہے خاموش رہا کرتی ہے
دل تو وحشی ہے جو بس شور و شغب مانگتا ہے
اب کسی اصل کی پہچان نہیں ہے ثاقبؔ
نام سب دیکھتے ہیں، کون نسب مانگتا ہے

سہیل ثاقب 

No comments:

Post a Comment