گلاب چہروں کی شادمانی کا کیا بنے گا؟
کہ باغ چھوڑا تو "باغبانی" کا کیا بنے گا؟
ہمارے آنسو کسی ٹھکانے تو لگ رہے ہیں
فرات کے بد نصیب پانی کا کیا بنے گا؟
جو ناسمجھ تھے وہ اس کو پڑھنے میں لگ گئے ہیں
اسے زمانے کی فکر ہے اور میں سوچتا ہوں
ہماری اٹھتی ہوئی جوانی کا کیا بنے گا؟
تِری انگوٹھی ہماری انگلی جکڑ چکی ہے
تُو جا رہا ہے تو اس نشانی کا کیا بنے گا؟
خدا کرے کہ ہمارے حصے میں تو نہ آئے
جو تُو ملے گا تو رائیگانی کا کیا بنے گا؟
حسن میں سینا پتی ہوں مرنے کا ڈر نہیں ہے
میں سوچتا ہوں کہ راجہ رانی کا کیا بنے گا؟
حسیب الحسن
No comments:
Post a Comment