Saturday, 20 July 2019

گلاب چہروں کی شادمانی کا کیا بنے گا

گلاب چہروں کی شادمانی کا کیا بنے گا؟
کہ باغ چھوڑا تو "باغبانی" کا کیا بنے گا؟
ہمارے آنسو کسی ٹھکانے تو لگ رہے ہیں
فرات کے بد نصیب پانی کا کیا بنے گا؟
جو ناسمجھ تھے وہ اس کو پڑھنے میں لگ گئے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ جون جانی کا کیا بنے گا؟
اسے زمانے کی فکر ہے اور میں سوچتا ہوں
ہماری اٹھتی ہوئی جوانی کا کیا بنے گا؟
تِری انگوٹھی ہماری انگلی جکڑ چکی ہے
تُو جا رہا ہے تو اس نشانی کا کیا بنے گا؟
خدا کرے کہ ہمارے حصے میں تو نہ آئے 
جو تُو ملے گا تو رائیگانی کا کیا بنے گا؟
حسن میں سینا پتی ہوں مرنے کا ڈر نہیں ہے
میں سوچتا ہوں کہ راجہ رانی کا کیا بنے گا؟

حسیب الحسن

No comments:

Post a Comment