Friday, 19 July 2019

آخری ٹیس آزمانے کو

آخری ٹیس آزمانے کو 
جی تو چاہا تھا مسکرانے کو
یاد اتنی بھی سخت جاں تو نہیں 
اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو
سنگریزوں میں ڈھل گئے آنسو 
لوگ ہنستے رہے دکھانے کو
زخم نغمہ بھی لو تو دیتا ہے 
اک دیا رہ گیا جلانے کو
جلنے والے تو جل بجھے آخر 
کون دیتا خبر زمانے کو
کتنے مجبور ہو گئے ہوں گے 
ان کہی بات منہ پہ لانے کو
کھل کے ہنسنا تو سب کو آتا ہے 
لوگ ترسے ہیں اک بہانے کو
ریزہ ریزہ بکھر گیا انساں 
دل کی ویرانیاں جتانے کو
حسرتوں کی پناہ گاہوں میں 
کیا ٹھکانے ہیں سر چھپانے کو
ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی 
پھول بالوں میں اک سجانے کو
آس کی بات ہو کہ سانس اداؔ 
یہ کھلونے تھے ٹوٹ جانے کو 

ادا جعفری

No comments:

Post a Comment