دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
اس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
تھیں جن کے دَم سے رونقیں شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا
بانہوں میں جب لیا اسے نادان تھا ضرور
کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ نہ پوچِھیے
یارو! سفر حیات کا آسان تو نہ تھا
چوکھٹ پہ اسکی سر کو جھکاتا میں کس لیے
وہ اک امیرِ شہر تھا، بھگوان تو نہ تھا
نیلام گھر بنایا نہیں اپنی ذات کو
کمزور اس قدر میرا ایمان تو نہ تھا
رسماً ہی آ کے پوچھتا فاروقؔ حالِ دل
کچھ اس میں اس کی ذات کا نقصان تو نہ تھا
فاروق روکھڑی
No comments:
Post a Comment