Saturday 20 July 2019

دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا

دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
اس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا
تھیں جن کے دَم سے رونقیں شہروں میں جا بسے
ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا
بانہوں میں جب لیا اسے نادان تھا ضرور
جب چھوڑ کر گیا مجھے نادان تو نہ تھا
کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ نہ پوچِھیے
یارو! سفر حیات کا آسان تو نہ تھا
چوکھٹ پہ اسکی سر کو جھکاتا میں کس لیے
وہ اک امیرِ شہر تھا، بھگوان تو نہ تھا
نیلام گھر بنایا نہیں اپنی ذات کو
کمزور اس قدر میرا ایمان تو نہ تھا
رسماً ہی آ کے پوچھتا فاروقؔ حالِ دل
کچھ اس میں اس کی ذات کا نقصان تو نہ تھا

فاروق روکھڑی

No comments:

Post a Comment