مقتل میں چمکتی ہوئی تلوار تھے ہم لوگ
جاں نذر گزاری پہ بھی تیار تھے ہم لوگ
ہم اہلِ شرف لوگ تھے اس شہر میں، لیکن
رسوا بھی سرِ کوچہ و بازار تھے ہم لوگ
کام آتے نہ تھے ہم کو بس اک کارِ جنوں کے
اس نسبتِ حق میں یہ شرف کم تو نہیں ہے
زندیق بھی، کافر بھی، گنہ گار تھے ہم لوگ
اس کو بھی تو کچھ حسن نے مغرور کیا تھا
کچھ اپنی انا میں بھی گرفتار تھے ہم لوگ
کچھ یادوں نے اس کی ہمیں ناشاد کیا ہے
کچھ اپنی طبیعت سے بھی بیزار تھے ہم لوگ
اب تُو نے بھی اپنانے سے انکار کیا ہے
اے وحشتِ شب! تیرے عزادار تھے ہم لوگ
اے شاہد خوش بخت! یگانہؔ سے یہ کہہ دو
کہتے ہیں کہ غالبؔ کے طرفدار تھے ہم لوگ
شاہد کمال
No comments:
Post a Comment