لہر اس آنکھ میں لہرائی جو بے زاری کی
میں نے ہنستے ہوئے پھر کوچ کی تیاری کی
مجھے جس رات سمندر نے اتارا خود میں
میں نے اس رات بھی ساحل کی طرفداری کی
میں نے گریہ کو بھی آداب کے اندر رکھا
نقشِ پا ڈھونڈتا پھرتا ہے سحر کا وہ بھی
جس نے اک رات گزاری نہیں بیداری کی
دل میں بھر لایا ہوں محرومئ دنیا سجاؔد
آج بازار سے جی بھر کے خریداری کی
سجاد بلوچ
No comments:
Post a Comment