Sunday 21 July 2019

لہر اس آنکھ میں لہرائی جو بے زاری کی

لہر اس آنکھ میں لہرائی جو بے زاری کی
میں نے ہنستے ہوئے پھر کوچ کی تیاری کی
مجھے جس رات سمندر نے اتارا خود میں
میں نے اس رات بھی ساحل کی طرفداری کی
میں نے گریہ کو بھی آداب کے اندر رکھا
اپنے اعصاب پہ وحشت نہ کبھی طاری کی
نقشِ پا ڈھونڈتا پھرتا ہے سحر کا وہ بھی
جس نے اک رات گزاری نہیں بیداری کی
دل میں بھر لایا ہوں محرومئ دنیا سجاؔد
آج بازار سے جی بھر کے خریداری کی

سجاد بلوچ

No comments:

Post a Comment