Monday, 22 July 2019

غم دوراں کی کسی رات سے کب گزرا ہے

غمِ دوراں کی کسی رات سے کب گزرا ہے 
یہ جنوں قرب کے لمحات سے کب گزرا ہے
تُو بھی میری ہی طرح خود سے گریزاں ہوتا
تُو مِری جاں، مِرے خدشات سے کب گزرا ہے
ہر گھڑی خوف لگا رہتا ہے بچھڑ جانے کا 
تُو ابھی شہر طلسمات سے کب گزرا ہے
آگ تو دُور، تپش اس کی جلاسکتی ہے 
شہرِ دل کے تُو مضافات سے کب گزرا ہے
درد، تنہائی، گھٹن، خوف، جنوں اور ہراس 
سُکھ بھلا ایسے مقامات سے کب گزرا ہے
اس کو اندازہ نہیں دکھ کا میرے کچھ ثاؔقب 
وہ مِری روح کے صدمات سے کب گزرا ہے

سہیل ثاقب 

No comments:

Post a Comment