روز تلخی یوں پینی پڑتی ہے
جیسے چائے میں چینی پڑتی ہے
کون آئے مِرے تعاقب میں
راہ میں بے زمینی پڑتی ہے
اس قدر تو نہیں جگہ دل میں
اور غربت کے چھید بڑھتے ہیں
یہ قبا جب بھی سینی پڑتی ہے
تیرے وعدے کی پاسداری کو
زندگی روز جینی پڑتی ہے
شاعری چھوٹتی نہیں ہے پھر
ایسی عادت کمینی پڑتی ہے
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment