Friday 19 July 2019

وہ بیوفا ہے تو کیا مت کہو برا اس کو

وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو برا اس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اس کو
نظر نہ آئے تو اس کی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا 
ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اس کو
وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اس کو
ابھی سے جانا بھی کیا اس کی کم خیالی پر 
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اس کو
اسے یہ دُھن کہ مجھے کم سے کم اداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اس کو
پناہ ڈھونڈ رہی ہے شبِ گرفتہ دِلاں 
کوئی پتاؤ مرے گھر کا راستہ اُس کو
غزل میں تذکزہ اس کا نہ کر نصیرؔ کہ اب
بھُلا چکا وہ تجھے تُو بھی بھُول جا اس کو

نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment