وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو برا اس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اس کو
نظر نہ آئے تو اس کی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اس کو
ابھی سے جانا بھی کیا اس کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہو گا سوچنا اس کو
اسے یہ دُھن کہ مجھے کم سے کم اداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اس کو
پناہ ڈھونڈ رہی ہے شبِ گرفتہ دِلاں
کوئی پتاؤ مرے گھر کا راستہ اُس کو
غزل میں تذکزہ اس کا نہ کر نصیرؔ کہ اب
بھُلا چکا وہ تجھے تُو بھی بھُول جا اس کو
نصیر ترابی
No comments:
Post a Comment