ذرا سے ہجر پہ تکرار کرنے لگ گئی ہے
وہ بدتمیز مجھے پیار کرنے لگ گئی ہے
میں خوش تھا اپنے ہی جیسے بیوفاؤں میں
تری وفا مجھے بیمار کرنے لگ گئی ہے
ہمارا رزق ابھی تک نظر نہیں آیا
سسکنے لگتی ہے اور نم زده بھی رہتی ہے
دلوں کے کام یہ دیوار کرنے لگ گئی ہے
ہزار شہر ہیں ملتان کے علاوہ بھی
ہماری ضد جنہیں مسمار کرنے لگ گئی ہے
ہم ایسے لوگ انہیں راہِ راست پر لاتے
یہ جن کا فیصلہ تلوار کرنے لگ گئی ہے
احمد عطاءاللہ
No comments:
Post a Comment