Friday 19 July 2019

تو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا

اے مری زندگی اے مری ہم نوا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
کچھ نہ اپنی خبر کچھ نہ تیرا پتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
جتنے چہرے چراغوں کے تھے بجھ گئے، اب وہ جلسے گئے وہ قرینے گئے 
اب کدھر جی لگے شامِ یاراں بتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
درد میں درد کی سی چمک ہی نہیں وہ زمیں ہی نہیں وہ فلک ہی نہیں 
بے ستارہ ہے شب اے شبِ آشنا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
دیکھنا دور تک خاک اُڑنے لگی کس خرابے کو یہ راہ مُڑنے لگی 
مجھ کو آواز دے وادئ جانفزا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
کیا وہی صبح کے رنگ تصویر ہیں کیا وہی شام کے سائے زنجیر ہیں 
کچھ تو معلوم ہو مجھ کو بادِ صبا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
اے مری شمعِ جاں صورتِ مہرباں اب یہ شہر گماں ہے دُھواں ہی دُھواں
تُو یقیں ہے مرا تُو کہیں ہے تُو آ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
چھب دکھائی نہ دے دُھن سنائی نہ دے کوئی گردشِ سراغِ رسائی نہ دے 
چشمِ رنگ کی دھنک رقصِ دل کی صدا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا 
غم وہ بادل کے یکجا ٹہرتا نہیں، دل وہ دریا کہ یکسُو گزرتا نہیں 
شاد و آباد رہنے کی رسمِ دعا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا ​

نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment