اے مری زندگی اے مری ہم نوا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
کچھ نہ اپنی خبر کچھ نہ تیرا پتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
جتنے چہرے چراغوں کے تھے بجھ گئے، اب وہ جلسے گئے وہ قرینے گئے
اب کدھر جی لگے شامِ یاراں بتا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
درد میں درد کی سی چمک ہی نہیں وہ زمیں ہی نہیں وہ فلک ہی نہیں
دیکھنا دور تک خاک اُڑنے لگی کس خرابے کو یہ راہ مُڑنے لگی
مجھ کو آواز دے وادئ جانفزا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
کیا وہی صبح کے رنگ تصویر ہیں کیا وہی شام کے سائے زنجیر ہیں
کچھ تو معلوم ہو مجھ کو بادِ صبا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
اے مری شمعِ جاں صورتِ مہرباں اب یہ شہر گماں ہے دُھواں ہی دُھواں
تُو یقیں ہے مرا تُو کہیں ہے تُو آ، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
چھب دکھائی نہ دے دُھن سنائی نہ دے کوئی گردشِ سراغِ رسائی نہ دے
چشمِ رنگ کی دھنک رقصِ دل کی صدا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
غم وہ بادل کے یکجا ٹہرتا نہیں، دل وہ دریا کہ یکسُو گزرتا نہیں
شاد و آباد رہنے کی رسمِ دعا، تُو کہاں رہ گئی میں کہاں آ گیا
نصیر ترابی
No comments:
Post a Comment