Monday, 22 July 2019

ٹوٹے ہوئے سپنے کی طرف دیکھ رہا ہے

ٹوٹے ہوئے سپنے کی طرف دیکھ رہا ہے
بچہ ہے کھلونے کی طرف دیکھ رہا ہے
ہر چند نظر بدلی ہے ہر شخص نے لیکن
وہ پھر بھی زمانے کی طرف دیکھ رہا ہے
بچنے کے تمہیں جو بھی جتن کرنے ہیں کر لو
طوفان کنارے کی طرف دیکھ رہا ہے
'اس آس پہ 'ابھرے گا یہیں سے کوئی سورج
ہر شخص اندھیرے کی طرف دیکھ رہا ہے
کیا اس کو نظر آتی ہے پھر کوئی کہانی
وہ پھر مِرے چہرے کی طرف دیکھ رہا ہے
کچھ دل میں دعا مانگ رہا ہے وہ خدا سے
جو ٹوٹتے تارے کی طرف دیکھ رہا ہے
ثاؔقب ہے رواں ابر جو اک بحر کی جانب
جلتے ہوئے خیمے کی طرف دیکھ رہا ہے

سہیل ثاقب 

No comments:

Post a Comment