ٹوٹے ہوئے سپنے کی طرف دیکھ رہا ہے
بچہ ہے کھلونے کی طرف دیکھ رہا ہے
ہر چند نظر بدلی ہے ہر شخص نے لیکن
وہ پھر بھی زمانے کی طرف دیکھ رہا ہے
بچنے کے تمہیں جو بھی جتن کرنے ہیں کر لو
'اس آس پہ 'ابھرے گا یہیں سے کوئی سورج
ہر شخص اندھیرے کی طرف دیکھ رہا ہے
کیا اس کو نظر آتی ہے پھر کوئی کہانی
وہ پھر مِرے چہرے کی طرف دیکھ رہا ہے
کچھ دل میں دعا مانگ رہا ہے وہ خدا سے
جو ٹوٹتے تارے کی طرف دیکھ رہا ہے
ثاؔقب ہے رواں ابر جو اک بحر کی جانب
جلتے ہوئے خیمے کی طرف دیکھ رہا ہے
سہیل ثاقب
No comments:
Post a Comment