دھڑکنوں کے سفیر ہو جائیں
جب یہ موسم شریر ہو جائیں
تھوڑی ہم پر عطا محبت کی
تھوڑے ہم بھی امیر ہو جائیں
مجھ پہ ہجرت اتارنا مولا
ان چراغوں کو دو دعائیں جو
آندھیوں کے اسیر ہو جائیں
ان کے کاسے کبھی نہیں بھرتے
وہ جو دل کے فقیر ہو جائیں
جب ارادہ کروں میں ملنے کا
لوگ منکر نکیر ہو جائیں
ہند اور پاک والے جھگڑے چھوڑ
آؤ برصغیر ہو جائیں
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment