عمر بھر عشق کسی طور نہ کم ہو، آمین
دل کو ہر روز عطا نعمتِ غم ہو، آمین
میرے کاسے کو ہے بس چار ہی سکّوں کی طلب
عشق ہو، وقت ہو، کاغذ ہو، قلم ہو، آمین
حجرۂ ذات میں یا محفلِ یاراں میں رہوں
جب میں خاموش رہوں، رونقِ محفل ٹھہروں
اور جب بات کروں، بات میں دَم ہو، آمین
لوگ چاہیں بھی تو ہم کو نہ جدا کر پائیں
یوں مِری ذات تِری ذات میں ضم ہو، آمین
عشق میں ڈوب کے جو کچھ بھی لکھوں کاغذ پر
خود بخود لوحِ زمانہ پہ رقم ہو، آمین
نہ ڈرا پائے مجھے تیرگیِ دشتِ فراق
ہر طرف روشنیِ دیدۂ نم ہو، آمین
میر کے صدقے مِرے حرف کو درویشی ملے
دُور مجھ سے ہوسِ دام و درم ہو، آمین
میرے کانوں نے سنا ہے تِرے بارے میں بہت
میری آنکھوں پہ بھی تھوڑا سا کرم ہو، آمین
جب زمیں آخری حِدت سے پگھلنے لگ جائے
عشق کی چھاؤں مِرے سر کو بہم ہو، آمین
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment