زباں کو حکم، نگاہِ کرم کو پہچانے
نگہ کا جرم، غبارِ الم کو پہچانے
وہ ایک جام کہاں ہر کسی کی قسمت میں
وہ ایک ظرف کہ اعجاز سم کو پہچانے
متاع درد پرکھنا تو بس کی بات نہیں
وہ دل جو خاک ہوۓ آج تک دھڑکتے ہیں
رہِ وفا ترے معجز رقم کو پہچانے
سحر سے پہلے یہاں آفتاب ابھرے ہیں
خلوصِ بندگیٔ چشم نم کو پہچانے
یہ خود فریب اجالے یہ ہاتھ ہاتھ دیئے
دیئے بجھاؤ کہ انسان غم کو پہچانے
کسی خیال کا سایہ کسی امید کی دھوپ
کوئی تو آۓ کہ دل کیف و کم کو پہچانے
ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک
کوئی قریب سے دیکھے تو ہم کو پہچانے
جو ہمسفر بھی رہے ہیں شریک منزل بھی
کچھ اجنبی تو نہ تھے پھر بھی کم کو پہچانے
بہت دنوں تو ہواؤں کا ہم نے رخ دیکھا
بڑے دنوں میں متاعِ قلم کو پہچانے
ادا جعفری
No comments:
Post a Comment