سرمئی جھیل کنارے سے اگر لی جاتی
پھر تو تصویر بڑی ڈوب کے دیکھی جاتی
توڑ لیتے ہیں اسے ٹھیک سے رکھتے رکھتے
قیمتی چیز فقیروں کو نہیں دی جاتی
حوصلہ دے کے انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے
ہم تِری آنکھ کا احساس نہیں کر پائے
چیز اچھی تھی سلیقے سے اگر پی جاتی
عشق والوں کو میاں نیند کہاں آتی ہے
سوئے درویش کی گڈری نہیں کھولی جاتی
میں نے بچپن میں بزرگوں سے سنا تھا ساجد
دل کی ہر بات عزیزوں سے نہیں کی جاتی
لطیف ساجد
No comments:
Post a Comment