Sunday, 19 January 2020

سرمئ جھیل کنارے سے اگر لی جاتی

سرمئی جھیل کنارے سے اگر لی جاتی
پھر تو تصویر بڑی ڈوب کے دیکھی جاتی
توڑ لیتے ہیں اسے ٹھیک سے رکھتے رکھتے
قیمتی چیز فقیروں کو نہیں دی جاتی
حوصلہ دے کے انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے
رونے والوں سے حقیقت نہیں پوچھی جاتی
ہم تِری آنکھ کا احساس نہیں کر پائے
چیز اچھی تھی سلیقے سے اگر پی جاتی
عشق والوں کو میاں نیند کہاں آتی ہے
سوئے درویش کی گڈری نہیں کھولی جاتی
میں نے بچپن میں بزرگوں سے سنا تھا ساجد
دل کی ہر بات عزیزوں سے نہیں کی جاتی

لطیف ساجد

No comments:

Post a Comment