کرایہ دار کو ہوتا ہے ناں مکان کا دکھ
اور تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں جان کا دکھ
سکوت تھا تو مجھے مسئلہ سخن سے رہا
وہ بات کرنے لگا ہے تو اب زبان کا دکھ
پروں کو کاٹنے والے کی خیر ہو مولا
تمہاری سوچ پہ حیرت ہے بخدا، ورنہ
ہوش والے تو سمجھتے ہیں آسمان کا دکھ
بچھڑنے والا سمجھتا بھی کیا مِرے غم کو
تِیر سمجھا ہے کبھی کیا کسی کمان کا دکھ
میں خودکشی کیلئے چھت پہ آ گیا ہوں، مگر
ڈرا رہا ہے مجھے دوسرے جہان کا دکھ
وہ لوٹ آئے گا سورج کے ڈوبنے سے قبل
سمجھ رہے ہو ناں صاحب مِرے گمان کا دکھ
اسد منٹو
No comments:
Post a Comment