Thursday 30 January 2020

جیب میں آسمان رکھتا ہوں

ٹوٹی پھوٹی کمان رکھتا ہوں
پھر بھی سینے کو تان رکھتا ہوں
ایک بستر کے بس کی بات نہیں
مدتوں کی تھکان رکھتا ہوں
تا کہ مجھ کو وہ سوچتی ہی رہے
میں اسے بد گمان رکھتا ہوں
تُو گریبان دیکھتا ہے، میں
جیب میں آسمان رکھتا ہوں
مجھ کو عؔمار اب زباں دی جائے
آنکھ رکھتا ہوں، کان رکھتا ہوں

عمار اقبال

No comments:

Post a Comment