دل حسن کو دان دے رہا ہوں
گاہک کو دکان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
جو فصل ابھی کٹی نہیں ہے
حاصل کا حساب ہو رہے گا
فی الحال تو جان دے رہا ہوں
گونگی ہے ازل سے جو حقیقت
میں اس کو زبان دے رہا ہوں
میں غم کو بسا رہا ہوں دل میں
بے گھر کو مکان دے رہا ہوں
جو فصل ابھی کٹی نہیں ہے
میں اس کا لگان دے رہا ہوں
حاصل کا حساب ہو رہے گا
فی الحال تو جان دے رہا ہوں
سلیم احمد
No comments:
Post a Comment