Monday 20 January 2020

دل حسن کو دان دے رہا ہوں

دل حسن کو دان دے رہا ہوں
گاہک کو دکان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
جو فصل ابھی کٹی نہیں ہے
میں اس کا لگان دے رہا ہوں
حاصل کا حساب ہو رہے گا
فی الحال تو جان دے رہا ہوں
گونگی ہے ازل سے جو حقیقت 
میں اس کو زبان دے رہا ہوں 
میں غم کو بسا رہا ہوں دل میں 
بے گھر کو مکان دے رہا ہوں
جو فصل ابھی کٹی نہیں ہے 
میں اس کا لگان دے رہا ہوں 
حاصل کا حساب ہو رہے گا 
فی الحال تو جان دے رہا ہوں 

سلیم احمد

No comments:

Post a Comment