Tuesday 21 January 2020

آخر ہم نے طور پرانا چھوڑ دیا

آخر ہم نے طَور پرانا چھوڑ دیا 
اس کی گلی میں آنا جانا چھوڑ دیا 
منظر بھی سب بانجھ رُتوں میں ڈوب گئے 
آنکھوں پر بھی پہرہ بٹھانا چھوڑ دیا 
نظروں پر کھڑکی کے پٹ دیوار کیے 
دروازوں میں اس کا سجانا چھوڑ دیا 
ختم ہوئی شوریدہ سری لب سِل سے گئے 
محفل محفل ہنسنا ہنسانا چھوڑ دیا 
جب سے ہوا احساس دِیا ہونے کا ہمیں 
تیز ہوا کے سامنے جانا چھوڑ دیا 
ڈر تھا کہیں کچھ اپنے لیے بھی مانگ نہ لیں 
ہم نے دعا کو ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا 
عرش ہوا اک لفظ جو مِنہا یادوں سے 
ہم نے گھر کو قُفل لگانا چھوڑ دیا 

عرش صدیقی

No comments:

Post a Comment