Tuesday, 21 January 2020

میں عام آدمی ہوں مرے عام عام دکھ

میں عام آدمی ہوں مِرے عام عام دکھ
لیکن مجھے عزیز ہیں میرے تمام دکھ
اب ڈالنا پڑے گا مجھے دل میں اک شگاف
کرنا تو ہے فرار تِرا بے لگام دکھ
کل رات میرے خواب کا منظر عجیب تھا
جھولی میں بھر کے لے گیا ماہِ تمام دکھ
رکھا ہوا ہے شام کے ماتھے پہ ایک چاند
زیرِ نگاہ درد ہے، بالائے بام دکھ
دنیا سے اختلاف مِرا اس لیے رہا
میرا مزاج تلخ ہے، میرا کلام دکھ
اے نؔاز اس دیار میں تھوڑی سی احتیاط
رکھا ہے شہرِیار نے خوشیوں کا نام دکھ

نذر حسین ناز

No comments:

Post a Comment