Saturday 11 January 2020

تو پاس بھی ہو تو دل بے قرار اپنا ہے

تُو پاس بھی ہو تو دل بے قرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں، انتظار اپنا ہے
ملے کوئی بھی، ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں راز دار اپنا ہے
بلا سے جاں کا زیاں ہو اس اعتماد کی خیر
وفا کرے نہ کرے، پھر بھی یار اپنا ہے
وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
اس آسرے پہ کہ اک غمگسار اپنا ہے
فراز راحتِ جاں بھی وہی ہے کیا کیجے
وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment