عشق نے حسن کی بیداد پہ رونا چاہا
تخمِ احساسِ وفا، سنگ میں بونا چاہا
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
ناخدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا
سنگدل کیوں نہ کہیں بتکدے والے مجھ کو
حضرتِ شیخ نہ سمجھے مِرے دل کی قیمت
لے کے تسبِیح کے رشتے میں پرونا چاہا
کوئی مذکور نہ تھا غیر کا، لیکن تم نے
باتوں باتوں میں یہ نشتر بھی چبھونا چاہا
دیدۂ تر سے بھی سرزد ہوا اک جرمِ عظیم
حشر میں نامۂ اعمال کو دھونا چاہا
مرتے مرتے بھی توقع رہی دلداری کی
رکھ کے سر زانوئے تقدِیر پہ سونا چاہا
جنسِ شہرت بہت ارزاں تھی، مگر میں نے حفیظ
دولتِ درد کو بے کار نہ کھونا چاہا
حفیظ جالندھری
آج 14 جنوری 2020 حفیظ جالندھری کا 120 واں یوم پیدائش ہے
No comments:
Post a Comment