Tuesday, 14 January 2020

عشق نے حسن کی بے داد پہ رونا چاہا

عشق نے حسن کی بیداد پہ رونا چاہا
تخمِ احساسِ وفا، سنگ میں بونا چاہا
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
ناخدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا
سنگدل کیوں نہ کہیں بتکدے والے مجھ کو
میں نے پتھر کا پرستار نہ ہونا چاہا
حضرتِ شیخ نہ سمجھے مِرے دل کی قیمت
لے کے تسبِیح کے رشتے میں پرونا چاہا
کوئی مذکور نہ تھا غیر کا، لیکن تم نے
باتوں باتوں میں یہ نشتر بھی چبھونا چاہا
دیدۂ تر سے بھی سرزد ہوا اک جرمِ عظیم
حشر میں نامۂ اعمال کو دھونا چاہا
مرتے مرتے بھی توقع رہی دلداری کی
رکھ کے سر زانوئے تقدِیر پہ سونا چاہا
جنسِ شہرت بہت ارزاں تھی، مگر میں نے حفیظ
دولتِ درد کو بے کار نہ کھونا چاہا

حفیظ جالندھری

آج 14 جنوری 2020 حفیظ جالندھری کا 120 واں یوم پیدائش ہے

No comments:

Post a Comment