خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
میں اگر تھک گیا، قافلہ تو چلے
چاند سورج بزرگوں کے نقشِ قدم
خیر بجھنے دو ان کو، ہوا تو چلے
حاکم شہر! یہ بھی کوئی شہر ہے
اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو
خود کشی کا ہنر تم سکھا تو چلے
اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا
آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے
بیلچے لاؤ، کھولو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں، کچھ پتا تو چلے
کیفی اعظمی
No comments:
Post a Comment