دلِ حبیب دُکھانے کا حوصلہ نہ ہوا
یہ حال تھا کہ سنانے کا حوصلہ نہ ہوا
مجھے کچھ اسکی بلندی سے خوف آتا تھا
تِری نظر میں سمانے کا حوصلہ نہ ہوا
تمہارے بعد خدا جانے کیا ہوا دل کو
انہیں فسانۂ الفت سنا دیا، لیکن
نظر ملا کے سنانے کا حوصلہ نہ ہوا
گئے تو ذوقِ نظر کو قرار مل نہ سکا
ملے تو آنکھ ملانے کا حوصلہ نہ ہوا
وہ جانتے تھے کہ سر سے گزر چکا پانی
لگا کے آگ بجھانے کا حوصلہ نہ ہوا
وطن عزیز نہ تھا سیف پھر بھی غربت میں
کسی کو دل سے بھلانے کا حوصلہ نہ ہوا
سیف الدین سیف
No comments:
Post a Comment