Thursday 16 January 2020

رائیگانی (حصہ دوم)

رائیگانی 
(حصہ دوم)

جو بات گنتی کے چند دنوں سے شروع ہوئی تھی
وہ سالہا سال تک چلی ہے
کئی زمانوں میں بٹ گئی ہے
میں ان زمانوں میں لمحہ لمحہ تمہاری نظروں کے بن رہا ہوں
میں اب تلک بھی تمہارے جانے کا باقی نقصان گن رہا ہوں

مجھے زمانہ یہ کہہ رہا تھا کہ ''رائیگانی'' مبالغہ ہے
بھلا تمہاری جدائی کا دکھ زماں مکاں کو ہلا رہا ہے
بھلا ریلیٹیویٹی کی سائنس کسی کے مڑنے سے منسلک ہے
انہیں بتاؤ
تمہارے جانے کا دکھ اٹھا کر
فقط اکیلا وہ میں نہیں تھا جو ذرہ ذرہ بکھر گیا تھا
تمہارے جانے کے کچھ دنوں میں ہمارا ہاکنگ بھی مر گیا تھا
اور اس کی تھیوری کے کالے گڑھے، جنہیں ہمیشہ تمہاری آنکھوں میں دیکھنا تھا
وہ میرے چہرے پہ پڑ گئے ہیں
وہ میری آنکھوں میں گڑ گئے ہیں
تمہارے جانے کے بعد سب کچھ ہی ایک اسی کے زاویے پہ پلٹ گیا ہے
کہ میرا ہونا تمہارے ہونے سے منسلک تھا
تمہاری آنکھوں کی روشنی تھی تو میں بھی دنیا میں ہو رہا تھا
تمہارے لہجے کے سُر ملے تھے، تو میں بنا تھا
تمہارے ہاتھوں کا لمس ہاتھوں کو مل رہا تھا
تو دیکھتا تھا
ہمارے ہاتھوں کے
ایٹموں کی دفع کی قوت
کشش میں کیسے بدل رہی ہے
پر اب تمہاری نظر کہیں ہے
تمہارا لہجہ بھی اب نہیں ہے
تو تم بتاؤ میں کس طریقے سے اپنی ہستی کو نیستی سے جدا کروں گا
میں دنگ آنکھوں سے ساری دنیا کو دیکھتا ہوں
اور اپنے ہونے کی کوئی عِلت تلاشتا ہوں
عجیب طرح کا بے نشاں، بے مقام دکھ ہے
سمجھنے والے سمجھ گئے تھے یہ رائیگانی ہے
رائیگانی؛ تمام صدیوں کا خام دکھ ہے
میں اب حقیقت سمجھ رہا ہوں
''تمام دکھ تھا، تمام دکھ ہے''
تمہیں بتاؤں
کسی کے ہونے کا کوئی مقصد، کوئی معانی کہیں نہیں ہے
اگر تو نطشے نہیں مرا ہے، تو اس سے پوچھو
کہ کیا کریں گے زمیں پہ رہ کے
پلیں بڑھیں گے
بقا کی خاطر لڑیں مریں گے
پھر اپنے جیسے کئی جنیں گے
اور اس جہاں سے نکل پڑیں گے
جنہیں جنیں گے وہ سب کے سب بھی یہی کریں گے
لڑیں مریں گے
پلے بڑھیں گے
پھر ان کے بچے اور ان کے بچے
یہ کیا تماشائے ہائے ہو ہے
یہ زندگی ہے تو آخ تھو ہے
اسی کراہت کے ساتھ کتنے زماں گزاروں
میں کس مروت میں رائیگانی کا دکھ گلے سے لگائے رکھوں
تمہیں بتاؤں کہ یہ اذیت بھی بے پناہ ہے میں ایسی حالت میں جس جگہ جتنے دن رہا ہوں
میں اب تلک بھی تمہارے جانے کا باقی نقصان گن رہا ہوں

صہیب مغیرہ صدیقی

No comments:

Post a Comment