دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا
اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا
ریت پر چھوڑ گیا نقش ہزاروں اپنے
کسی پاگل کی طرح نقش مٹانے والا
سبز شاخیں کبھی ایسے تو نہیں چٹخی ہیں
عارضِ شام کی سرخی نے کِیا فاش اسے
پردۂ ابر میں تھا آگ لگانے والا
سفرِ شب کا تقاضہ ہے میرے ساتھ رہو
دشت پر ہول ہے، طوفان ہے آنے والا
مجھ کو در پردہ سناتا رہا قصہ اپنا
اگلے وقتوں کی حکایت سنانے والا
شبنمی گھاس، گہنے، پھول، لرزتی کرنیں
کون آیا ہے خزاؤں کو لوٹانے والا
اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری
رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا
وزیر آغا
No comments:
Post a Comment