اک تِری یاد ہے اک روزگار کا دکھ ہے
اس پہ اک اور ستم انتظار کا دکھ ہے
میں خدائی کا طلبگار نہیں ہوں، لیکن
ہاں، مگر تھوڑا بہت اختیار کا دکھ ہے
تُو اکیلا ہی نہیں قافلے میں اور بھی ہیں
اے زمیں زاد! ذرا چوم میری آنکھوں کو
یہ جو ٹپکا ہے لہو، تیرے پیار کا دکھ ہے
ایسا کب ہے کہ دوا مجھ کو حوصلہ دے دے
یہ محض اب کا نہیں، بار بار کا دکھ ہے
ہرا تھا پہلے، مگر اب ہمارے جیسا ہے
وہ اک پہاڑ، جسے آبشار کا دکھ ہے
دلکشی جیت میں محسوس کہاں ہوتی ہے
اصل خوشی تو مِری جان، ہار کا دکھ ہے
اسد منٹو
No comments:
Post a Comment