Monday, 13 January 2020

اک تری یاد ہے اک روزگار کا دکھ ہے

اک تِری یاد ہے اک روزگار کا دکھ ہے
اس پہ اک اور ستم انتظار کا دکھ ہے
میں خدائی کا طلبگار نہیں ہوں، لیکن
ہاں، مگر تھوڑا بہت اختیار کا دکھ ہے
تُو اکیلا ہی نہیں قافلے میں اور بھی ہیں
یہ فقط تیرا نہیں، بے شمار کا دکھ ہے
اے زمیں زاد! ذرا چوم میری آنکھوں کو
یہ جو ٹپکا ہے لہو، تیرے پیار کا دکھ ہے
ایسا کب ہے کہ دوا مجھ کو حوصلہ دے دے
یہ محض اب کا نہیں، بار بار کا دکھ ہے
ہرا تھا پہلے، مگر اب ہمارے جیسا ہے
وہ اک پہاڑ، جسے آبشار کا دکھ ہے
دلکشی جیت میں محسوس کہاں ہوتی ہے
اصل خوشی تو مِری جان، ہار کا دکھ ہے

اسد منٹو

No comments:

Post a Comment